وجودِ قرآن، وجودِ ضرورتِ حدیث کے متقاضی ہے
انکار حجیتِ حدیث انکارِ قرآن کے مستلزم ہے
تحرير: (مفتی) اسماعيل یمین سید (عرف سید اسماعیل یمین)
منکرین حدیث کے مختلف دعوے اور مغالطے اور ان کے شور شرابا صدیوں سے گونجتے آئے جو کوئی نئی بات نہیں۔ حیرت کن بات یہ ہے کہ احادیث کے انبار اور قبولیت حدیث کو مستلزم کرنے میں ان گنت ناقابل تردید دلائل و تحقیقات ہونے کے باوجود اب بھی قضیۂ حدیث پر طرح طرح کے سوالیں اٹھائے جاتے ہیں نامعلوم جہتوں سے، منجملہ ”اہل قرآنیت“ اور الحاد پسند حضرات، جو قرآن کو بطور عقلی دلیل استعمال کرکے حدیث کی تردید و انکار کرنے میں جابیجا کوشش کرتے ہیں۔ اسی وتیرہ میں قریب ہی میں بر صغیر کے ایک معروف تبصرہ نگار صحافی نے وہی پُرانا دعویٰ جدید بہروپ (بلکہ بظاہر تخلیقی انداز) میں نشر کیا جو خاکسار کے سوشیل میڈیا کے دیوار سے گزرا۔ ان میں انہوں نے اس طریقے سے رقم طراز ہیں:
”جب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ایک مکمل اور جامع کتاب ہے تو پھر حدیث کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تعین کون کرے گا کہ کون سی حدیث ضعیف اور کون سی حدیث صحیح ہے؟ جس طریقہ کار کے تحت احادیث ایک سے دوسرے پھر تیسرے اور پھر باقی کو منتقل ہوئیں کیا غالب امکان نہیں تھا کہ انکی اصل شکل بگڑ گی ہو گی ؟ کیا بیشمار حدیثیں لوگوں نے اپنے مفاد کے زیر اثر نہیں گھڑ یں؟“
ِحقیقت یہ ہے کہ قرآن کی تدوین تنظیم و تاریخ، بشمول سورتیں و آیات کی گنتی وغیرہ، سب کے سب نقل حدیث یعنی روایتِ صحابہ کے ذریعہ سے ہم تک آپہنچے، اگر نقلِ احادیث و روایتِ صحابہ کو منظر سے ہٹا دے تو نتیجتًا قرآن کو بھی ختم کرنے کا مترادف ہوگا۔ اور جب یہ حاصل ہو جائے تو کوئی بعید نہیں کہ رسالت اور پیغامِ رسالت کو بھی معدوم کردئیے جائیں گے پھر صرف اللہ ہی رہ جائے گا بغیر اس کے کلام کے یعنی کلام اللہ کے۔ مطلب، روایتِ احادیث اور قضیۂ حدیث اور وجودِ صحابہ کو قرآن کے ایصال و تبلیغ میں کلیدی کردار و مرکزی ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ مزید برآں، اگر ہم کچھ دیر کیلئے دین و قرآن ایک طرف رکھ کر ہم اپنی ذاتی و معاشرتی مسائل و ضروریات کی طرف دیکھیں اور اپنی وجودیت اور پہچان کی طرف دیکھیں، تو ہمارے وجود کے لئے ہمارے دادا پر دادا سلسلۂ اجداد کی وجودیت اور ان کی طرف سے اپنی برادری و اقدار اور آبائی وطن کے شناخت و تسلسلِ نسب کی منقولیت کا اعتراف ضروری ہوگا جس پر بسا اوقات حجتِ شہریت و حقِ سکونت دار و مدار ہے بلکہ اپنی جسمانی صحت و تندرستی دار و مدار ہو سکتے ہیں بجائے صرف مشترک جد امجد بابا آدمؑ پر مدار ہونے کے، ٹھیک ویسے ہی قرآن کی وجودیت اور موثوقیت کیلئے قرآن کے اوّلین مخاطبین رسول کریم ﷺ اور صحابہ ؓ کی وجودیت اور ان کی طرف سے قرآن و تعلیم قرآن کی معلومات پشت در پشت کی منقولیت، عرف احادیث، تسلیم کرنی پڑے گی۔ بہ الفاظ دیگر، جس طرح انسان اپنی شناخت، تاریخ اور نسب کے بارے میں صرف پہلے انسان جد امجد حضرت آدم علیہ السلام پر انحصار نہیں کرتا بلکہ نسل در نسل منتقل معلومات، گواہوں، روایات اور با وثوق منتقل کردہ تاریخ پر اعتماد کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح دین و شریعت کے معاملے میں قرآن پر بھی بطور واحد ماخذ مکمل انحصار نہیں کرسکتا لہٰذا قرآن کی تاریخی رسائی اور عملی تفصیل بھی نسل در نسل منتقل شدہ محفوظ روایات یعنی احادیث پر موقوف ہیں۔ قرآن کریم (کتاب اللّٰہ) کا نزول اور اس پر اعتماد رسول اکرم محمد ٖﷺ کی رسالت پر موقوف ہے؛ اور احادیث و سنن اور سنت نبوی تک رسائی کے بغیر، رسالت پر ایمان و معرفت سے افروز ہونا اور رسالت کے صحیح علم و فہم تک رسائی ہونا، ناممنکن ہے۔ رسالت پر ایمان اور اس کی معرفت، اور حتّی الامکان رسالت کے متعلق صحیح علم و فہم، سبھی صحیح و مستند احادیث و سنن تک رسائی پر مبنی ہے۔ البتہ، جہاں احادیث کی توثیق اور مستند کو غیر مستند سے علاحدہ کرنے کا تعلق ہے تو ان سب کے جانچ پڑتال اور پہچان کیلئے علمِ صحیح و ضعیف اور علمِ جرح و تعدیل، یعنی علم مُصطلح الحدیث (عرف علوم الحدیث)، نے ایک اہم کلیدی کردار ادا کی، جس کے مشابہ مثالیں ہمارے روز مرہ کے مسائل میں بھی ملتے ہیں جیسا کہ عصر حاضر کے اہم خبریں ہم تک پہنچنے کیلئے اور صحیح خبروں کو بے بنیاد غیر موثوق خبروں سے علاحدہ کرنے کیلئے مستند اخبار اور معتمد صحافت اور ان کے ضوابطِ صحافت کو اہم مقام حاصل ہے، بلکہ بسا اوقات کسی کو زندہ رہنے دینے یا نہ رہنے دینے کے حق میں (مثلًا فوجداری عدالت میں مبینہ مجرم قاتل اور دہشت گرد قرار دینے اور مابعد سزا اور پھانسی کا حکم نافذ کرنے میں) مستند صحافت اور اخبار کے موثوق رپورٹ، بمطابق ضوابطِ صحافت، اہم کردار ادا کرتی ہے بالخصوص شواہد و دیگر حجت کے عدم موجودگی میں، ٹھیک اسی طریقے سے محدثین کے یہاں اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے جانچ پڑتال اور توثیق و تصدیق کے آلات و ضوابط طے کی گئیں صحیح مستند احادیث کو ضعیف و موضوع احادیث سے تمییز کرنے کے لئے بلکہ حدیث کے رُوات اور سلسلہ اسناد حدیث کے رجال پر علوم سوانح حیات و انفرادی نفسیاتی تجزیے کے حوالے سے تاریخ اسلام میں لا مثال کام کی گئی جس کی نظیر دیگر ادیان کے علماء کے کارناموں میں نہیں ملتیں جہاں رُوات اور رجالِ حدیث، قبولِ حدیث کے باب میں، شروع ہی سے انھیں غیر موثوق اور ناقابل اعتماد و مجروح سمجھے جاتے جب تک کہ ان کے حق میں اعلیٰ معیار کی توثیق و تصدیق (بذریعہ تاریخ و دستاویز اور شواہد و طرقِ اسناد) نہ ملے۔ اسی کے حوالے سے جن تاریخی ہستیاں اس علم جرح و تعدیل کے میدان میں معیاریں قائم کیں، ان میں آٹھویں صدی ھجری (چودھویں صدی عیسوی) کے مشہور امام المِزّی کے شہرہ آفاق کتاب کئی ضخیم جلدوں میں ”تهذيب الكمال في أسماء الرجال“، اور مسبوق الذكر امام اَلمِزّي كے معاصر آٹھویں صدی ھجری کے حدیث و سوانح رجال کے امام اَلذّھبی کی کتابیں ”تذکرة الحفاظ“ اور ”ميزان الاعتدال في نقد الرجال“، اسی طریقے سے نویں صدی ھجری (پندرہویں صدی عیسوی) کے امام الحدیث حافظ ابن حجر العسقلانی کی کتابیں ”تهذيب التهذيب“ اور ”لِسان الميزان“ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں تاریخ سلام کے پہلی تین چار صدیوں میں واقعات سے بھڑی ہوئی ہیں جہاں علماء کرام و محدثین عظام کو شدید ظلم و ستم اور طرح طرح کی اذیتیں اٹھانی پڑی بلکہ انھیں قید با مشقت اور جلاوطن کے شکار ہونے پڑے جن میں مشہور و معروف محدثین و فقہاء سر فہرست ہیں منجملہ سعيد بن المسيب، سعيد بن جبير، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام نسائی، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں جہنیوں نے حکومت وقت کے سامنے اپنے موقف اورعقیدت اور روایتِ احادیث پر نبرد آزمائی کے ساتھ جمے رہے، جلاوطن کردئے گئے لیکن ظالم حکمران کے سامنے اپنے احادیث اور شریعت کے میدان میں کبھی بھی سر تسلیم خم نہیں ہوئے، جس سےمزید اس بات (خاص کر مستشرقین اور منکرین حدیث) کی تردید ہوتی ہے کہ محدثین کرام اپنے وقت کے ظالم حکمران اور خلفاء کے دباؤ میں آکر احادیث میں ایجاد و اختراع کے مرتکب ہوئے ہو یا ان سے لگزشیں ہوئیں۔
اسماعیل یمین سید (فاضل و تکمیل افتاء دار العلوم دیوبند، 1418ھ و 1419ھ)
ایمیل:
correspondence.ismailsyed@gmail.com
صاحبِ مضمون ہٰذا لندن برطانیہ میں استاذ حدیث و شریعت، امورِ عالم عرب اور اسلامی میں تحقيقی و تجزیاتی خدمات کے ساتھ وابستہ، انگریزی روزنامہ ڈھاکہ ٹرائبون (Dhaka Tribune) کے لندن بیرو کے کالمنِسٹ ہے اور سوشیل میڈیا ایکس پر موجود ہے: IsmailYSyed@

